پتوکی میں پسند کی شادی پر بی ایس کی طالبہ پر اے ایس آئی کا مبینہ تشدد، ڈی پی او قصور کا فوری ایکشن، حوالات میں بند کروا دیا

6 / 100 SEO Score

– پنجاب کے شہر پتوکی میں ایک حیران کن واقعہ سامنے آیا ہے جہاں ایک نوجوان بی ایس کی طالبہ پر پسند کی شادی کے بعد پولیس اہلکار کی جانب سے مبینہ تشدد کیا گیا۔ تاہم، ڈی پی او قصور محمد عیسیٰ خان نے فوری نوٹس لیتے ہوئے اے ایس آئی کو حوالات میں بند کروا دیا اور اس کے خلاف سخت دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔

 

کھلی کچہری میں بی ایس طالبہ کا انکشاف

 

یہ واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب محلہ عباس پارک کی رہائشی طالبہ علیشبہ بی بی نے تھانہ سٹی پتوکی میں منعقدہ کھلی کچہری کے دوران ڈی پی او قصور محمد عیسیٰ خان کے سامنے پیش ہو کر اپنی روداد سنائی۔ علیشبہ نے بتایا کہ:

 

اُس نے اپنی مرضی سے کاشف نامی نوجوان سے شادی کی۔

 

اس کے والدین نے شوہر کے خلاف اغوا کا جھوٹا مقدمہ درج کروا رکھا ہے۔

 

پولیس نے اے ایس آئی لیاقت کی سربراہی میں اس پر مبینہ تشدد کیا، اور اسے ہراساں کیا گیا۔

 

 

پولیس کا ردعمل: انصاف کی فوری کارروائی

 

عوامی شکایت سنتے ہی ڈی پی او قصور محمد عیسیٰ خان نے فوری ایکشن لیا۔ انہوں نے:

 

اے ایس آئی لیاقت کو معطل کر کے تھانہ سٹی پتوکی کی حوالات میں بند کروایا۔

 

متعلقہ تھانے کو سخت دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔

 

کہا کہ پولیس کا فرض عوام کو تحفظ دینا ہے نہ کہ اُن پر ظلم کرنا۔

 

 

عوام کا ردعمل اور پولیس کی کارکردگی

 

اس واقعے نے پتوکی میں پولیس کے کردار پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ عوام نے ڈی پی او قصور کے بروقت اور شفاف فیصلے کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ:

 

اگر تمام افسران اسی طرح فوری انصاف دیں تو عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔

 

لڑکیوں کو اپنے فیصلے کرنے کا حق دینا چاہیے، اور اُن پر تشدد کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

 

 

قانونی اور اخلاقی پہلو

 

پسند کی شادی پاکستانی قانون کے مطابق بالغ افراد کا بنیادی حق ہے۔

 

کسی بھی پولیس اہلکار کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ذاتی یا خاندانی تنازعات میں فریق بنے یا تشدد کرے۔

 

ڈی پی او قصور کا بروقت ردعمل ایک مثال ہے جو باقی افسران کے لیے سبق بن سکتا ہے۔

 

 

 

 

نتیجہ:

 

یہ واقعہ پولیس کے اندر موجود کالی بھیڑوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ایسے افسران کی موجودگی کو بھی ظاہر کرتا ہے جو عوام کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ پسند کی شادی کو جرم بنانا بند ہونا چاہیے اور معاشرے کو ایسے واقعات کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔

– پنجاب کے شہر پتوکی میں ایک حیران کن واقعہ سامنے آیا ہے جہاں ایک نوجوان بی ایس کی طالبہ پر پسند کی شادی کے بعد پولیس اہلکار کی جانب سے مبینہ تشدد کیا گیا۔ تاہم، ڈی پی او قصور محمد عیسیٰ خان نے فوری نوٹس لیتے ہوئے اے ایس آئی کو حوالات میں بند کروا دیا اور اس کے خلاف سخت دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔

کھلی کچہری میں بی ایس طالبہ کا انکشاف

یہ واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب محلہ عباس پارک کی رہائشی طالبہ علیشبہ بی بی نے تھانہ سٹی پتوکی میں منعقدہ کھلی کچہری کے دوران ڈی پی او قصور محمد عیسیٰ خان کے سامنے پیش ہو کر اپنی روداد سنائی۔ علیشبہ نے بتایا کہ:

اُس نے اپنی مرضی سے کاشف نامی نوجوان سے شادی کی۔

اس کے والدین نے شوہر کے خلاف اغوا کا جھوٹا مقدمہ درج کروا رکھا ہے۔

پولیس نے اے ایس آئی لیاقت کی سربراہی میں اس پر مبینہ تشدد کیا، اور اسے ہراساں کیا گیا۔

پولیس کا ردعمل: انصاف کی فوری کارروائی

عوامی شکایت سنتے ہی ڈی پی او قصور محمد عیسیٰ خان نے فوری ایکشن لیا۔ انہوں نے:

اے ایس آئی لیاقت کو معطل کر کے تھانہ سٹی پتوکی کی حوالات میں بند کروایا۔

متعلقہ تھانے کو سخت دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔

کہا کہ پولیس کا فرض عوام کو تحفظ دینا ہے نہ کہ اُن پر ظلم کرنا۔

عوام کا ردعمل اور پولیس کی کارکردگی

اس واقعے نے پتوکی میں پولیس کے کردار پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ عوام نے ڈی پی او قصور کے بروقت اور شفاف فیصلے کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ:

اگر تمام افسران اسی طرح فوری انصاف دیں تو عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔

لڑکیوں کو اپنے فیصلے کرنے کا حق دینا چاہیے، اور اُن پر تشدد کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

قانونی اور اخلاقی پہلو

پسند کی شادی پاکستانی قانون کے مطابق بالغ افراد کا بنیادی حق ہے۔

کسی بھی پولیس اہلکار کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ذاتی یا خاندانی تنازعات میں فریق بنے یا تشدد کرے۔

ڈی پی او قصور کا بروقت ردعمل ایک مثال ہے جو باقی افسران کے لیے سبق بن سکتا ہے۔

 

نتیجہ:

یہ واقعہ پولیس کے اندر موجود کالی بھیڑوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ایسے افسران کی موجودگی کو بھی ظاہر کرتا ہے جو عوام کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ پسند کی شادی کو جرم بنانا بند ہونا چاہیے اور معاشرے کو ایسے واقعات کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔

 

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔