بم بنانے کا تجسس یا دہشت گردی کی نیت؟‘ ابن عبداللہ الپاکستانی کا چونکا دینے والا کیس — ایف بی آئی کیسے نارووال کے طالبعلم تک جا پہنچی؟

6 / 100 SEO Score

بم بنانے کا تجسس یا دہشت گردی کی نیت؟‘ ابن عبداللہ الپاکستانی کا چونکا دینے والا کیس — ایف بی آئی کیسے نارووال کے طالبعلم تک جا پہنچی؟

 

لاہور (نمائندہ قوم نیوز) دہشتگردی کا الزام، ایف بی آئی کی خفیہ اطلاع، اور ایک عام طالبعلم کی زندگی کی مکمل الٹ پلٹ۔ یہ کوئی فلمی کہانی نہیں بلکہ نارووال کے ابن عبداللہ الپاکستانی کے گرد گھومتی حقیقت ہے، جس نے صرف بم بنانے سے متعلق سرچ کی اور اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ کیا یہ صرف تجسس تھا؟ یا کوئی اور حقیقت چھپی ہے؟ پاکستانی سکیورٹی ادارے، امریکی انٹیلیجنس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس معاملے پر مکمل سرگرم ہو چکے ہیں۔

 

ابتدائی معلومات: ایک سرچ، جو مہنگی پڑ گئی

 

ابن عبداللہ، جو نارووال کے ایک مقامی کالج میں زیر تعلیم تھا، نے گوگل پر “how to make a bomb” یعنی “بم بنانے کا طریقہ” سرچ کیا۔ یہ سرچ اس وقت امریکی ادارے ایف بی آئی کے ریڈار پر آ گئی جب یہ سرچ ایک وی پی این کے ذریعے امریکا سے کنیکٹ ہوئی۔ ایف بی آئی نے نہ صرف سرچ کا ریکارڈ محفوظ کیا بلکہ اسے پاکستانی اداروں کو فوری الرٹ بھی بھیجا۔

 

پاکستان میں ہلچل، ایف آئی اے کی ہنگامی کارروائی

 

ایف بی آئی کی خفیہ رپورٹ جیسے ہی پاکستان پہنچی، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے فوری حرکت میں آ کر ابن عبداللہ کی شناخت اور لوکیشن ٹریس کی۔ صرف 48 گھنٹوں میں اسے نارووال سے گرفتار کر لیا گیا۔ دوران تفتیش وہ مسلسل یہی دہراتا رہا:

 

> “میرا ارادہ دہشتگردی نہیں تھا، میں صرف تجسس کی بنیاد پر سرچ کر رہا تھا۔”

 

 

 

مشکوک مواد کی برآمدگی

 

ملزم کے لیپ ٹاپ اور موبائل سے درج ذیل مواد برآمد ہوا:

 

بم سازی سے متعلق مختلف ویب سائٹس کی ہسٹری

 

یوٹیوب پر خطرناک مواد کی ویڈیوز

 

چند غیر ملکی چیٹ رومز سے چیٹ لاگز

 

ٹیلیگرام گروپس کے لنکس جن میں مبینہ طور پر شدت پسند مواد شیئر کیا جا رہا تھا

 

 

تفصیلی جدول: کیس کا خلاصہ

 

معلومات تفصیل

 

ملزم کا نام ابن عبداللہ الپاکستانی

عمر 19 سال

رہائش نارووال

تعلیمی ادارہ گورنمنٹ انٹر کالج نارووال

ابتدائی جرم گوگل پر ’بم بنانے کا طریقہ‘ تلاش

گرفتار کرنے والا ادارہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ

رپورٹ موصول ہوئی ایف بی آئی امریکہ سے

برآمد مواد حساس ویڈیوز، لنکس، چیٹ ہسٹری

 

 

ایک سوال: تجسس یا دہشتگردی؟

 

اس واقعے نے سوشل میڈیا، عوام اور ماہرین قانون میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے:

کیا محض سرچ کرنا جرم ہے؟ یا اس کے پیچھے کچھ اور چھپا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے:

 

ہر مشکوک سرچ پر گرفتاری خطرناک روایت ہو سکتی ہے

 

تاہم، اگر نیت اور مقصد دہشتگردانہ ہو، تو خاموشی خطرناک ہو سکتی ہے

 

سوشل میڈیا اور ویب پر سرگرمیاں اب حساس ترین مانی جا رہی ہیں

 

 

بلٹ پوائنٹس میں نمایاں نکات (متن میں مربوط)

 

ابن عبداللہ کا کیس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ڈیجیٹل دنیا میں کوئی بھی مشکوک سرگرمی عالمی اداروں کی نظروں سے اوجھل نہیں رہتی۔ ایف بی آئی جیسا ادارہ، ایک عام پاکستانی طالبعلم کی سرگرمی کو پکڑ کر پاکستانی حکام تک اطلاع پہنچا سکتا ہے۔ اس واقعے سے واضح ہوتا ہے کہ:

 

سائبر اسپیس میں ہر حرکت محفوظ ہو رہی ہے

 

شدت پسندانہ مواد تک رسائی دنیا بھر میں نگرانی میں ہے

 

سادہ تجسس بھی اگر شدت پسند مواد سے جڑ جائے، تو خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے

 

نوجوانوں میں آن لائن سرگرمیوں سے متعلق تربیت اور شعور کی اشد ضرورت ہے

 

 

والدین اور تعلیمی اداروں کی ذمہ داری

 

اس واقعے نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا تعلیمی ادارے اپنے طلبہ کو آن لائن شعور دے رہے ہیں؟ کیا والدین اپنے بچوں کی ڈیجیٹل سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ:

 

> “ڈیجیٹل شعور اب محض آئی ٹی کلاس کا حصہ نہیں، بلکہ قومی سلامتی کا پہلو بن چکا ہے۔”

 

 

 

قانونی ماہرین کی رائے

 

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل رانا محمود کہتے ہیں:

 

> “اگرچہ قانون کے مطابق صرف سرچ کرنا جرم نہیں، لیکن اگر اس کے ساتھ دیگر شواہد جُڑے ہوں، جیسے شدت پسند چیٹس یا مواد، تو قانون حرکت میں آ سکتا ہے۔”

 

 

 

نتیجہ: ایک لمحے کا تجسس، عمر بھر کا پچھتاوا؟

 

ابن عبداللہ کے کیس نے ایک بڑی گھنٹی بجا دی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ:

 

تعلیمی ادارے سائبر سیکیورٹی اور ڈیجیٹل آداب پر ورکشاپس منعقد کریں

 

والدین اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں سے باخبر رہیں

 

ریاستی ادارے شہریوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے مؤثر مہمات شروع کریں

 

 

کیونکہ آج کا ایک تجسس، کل کا دہشتگردی کا الزام بن سکتا ہے… اور صرف ایک کلک، پوری زندگی بدل سکتا ہے

نوٹ: یہ خبر عوامی مفاد میں فراہم کی گئی ہے۔ اس میں شامل معلومات دستیاب ذرائع، رپورٹس یا عوامی بیانات پر مبنی ہیں۔ ادارہ اس خبر میں موجود کسی بھی دعوے یا رائے کی تصدیق یا تردید کا ذمہ دار نہیں ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل متعلقہ حکام یا مستند ذرائع سے رجوع کریں۔